top of page
Search

25 اگست 1900 . تحفظ عقیدہ ختم نبوت میں پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخی کردار.

  • Writer: Muhammad Faiz ul Mukhtar
    Muhammad Faiz ul Mukhtar
  • Aug 25, 2021
  • 8 min read


یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دور رسالت مآب ﷺ سے ہی چھوٹے مدعیان نبوت کا ظہور ہو چکا تھا لیکن نبی کریم خاتم النبیین ﷺ کے ظاہر ی وصال مبارک کے بعد جن جن فتنوں نے زور پکڑا، اُن میں سے ایک مسیلمہ کذاب کا فتنہ تھا ، یہ وہ وقت تھا جب امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے عہدہ پر مامور تھے، حالات نہایت گھمبیر تھے، مدینہ منورہ کو ہر طر ف سے خطرات در پیش تھے لیکن یار غار مصطفٰی ﷺ کو ہر مصیبت منظور تھی سوائے اس کے کہ کوئی مسند نبوت پر اپناحق جتانے کی کوشش کرے۔ لہذا بارہ سواصحاب رسول ﷺ نے شہادت کےسرخ قباء کو پہنے جنگ یمامہ کی خاک پر اپنے اجسام ظاہر ی کے ٹکڑے ٹکڑے کروائے ، اس جنگ میں مسلمانوں نے تاریخی نقصان برداشت کر لیا لیکن مسیلمہ کذاب کی سر کوبی تک اس جہاد کو نہ روکا اور یوں ختم نبوت پر ڈاکہ زنی کو برداشت نہ کرتے ہوئے سات سو حفاظ کرام سمیت کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس مشن کو سر انجام دے کر ختم نبوت کی حفاظت کی اہمیت کو اجاگر کر دیا۔

پھر عرصہ دراز بعد بر صغیر پاک و ہند میں بھی ایک کذاب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوٰ ی کیاتو سنت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر عمل کرتے ہوئے جس نے ختم نبوت کی حفاظت کا سہرا اپنے سربندھوایا وہ عظیم نام گرامی حضرت پیر سیدنا مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

انہی حجت اللہ علی الارض مجدد کے متعلق فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے : ” اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے آخر میں ایک ایسا شخص مبعوث فرمائےگا جو اس کے دین کی تجدید کرے گا” (سنن ابی داؤد)

سیدنا پیر مہر علی شاہ کا شمار ان نابغہ روز گار ہستیوں میں ہوتاہے جو احیائے دین اور تجدید اسلام میں نکھار کی وجہ بنے ، آ پ کی شخصیت علمی و روحانی کمالات میں مخزن و معدن تھی ۔آپ نے اسلام کے خانقاہی نظام کو حیات نو بخشی اور اپنے علم و کردار سے اسلا م کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا ، قدرت نے انھیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کےلیے بطور خاص تیار کیا تھا۔ آپ سلسلہ چشتیہ نظامیہ سلیمانیہ میں حضرت شمس الدین سیالوی رحمۃاللہ علیہ کےدست حق پر ست پر بیعت ہوئے اور خلافت سے نوازے گئے۔

آ پ ہجرت کر کے حجاز مقدس میں مقیم ہونے کی غرض سے تشریف لے گئےتو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کشف کی بناء پر آپ کو قادیانیت کی سر کوبی کےلیے واپس ہندوستان جانے کا مشورہ دیا۔ انہی دنوں 1891ء میں مرزا قادیانی نےاپنے مسیح موعود ہونے کا دعوٰ ی کردیا، حضرت پیر مہر علی شاہ نے فرمایا کہ خواب میں حضور سروردو عالم خاتم النبیین ﷺ نے مجھے مرزا قادیانی کی تردید کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے کاٹ رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔اس دوران ایک مطبوعہ دعوت علامہ حضرت قبلہ عالم گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے احیائے دین اور عروج اسلام کے لیے مامور کیا گیا ہوں ، آپ اس مشن میں میری اعانت کریں۔

قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا: میں آپ کو مسیح موعود نہیں مانتا ۔آپ حسب ِسابق اپنی توجہ غیر مسلموں سے مناظرات اور تبلیغ اسلام پر مرکوز رکھی، لیکن مرزا قادیانی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے، جب مرزا قادیانی کے نئے مذہب کا زیادہ چرچا ہوا تو علمائے کرام کی درخواست پر آپ نے 1899ء،1900 میں شمس الہدایہ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی جس میں انتہائی علمی اور مدلل انداز میں حیات مسیح اور قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے موضوع پر روشنی ڈالی ۔ مرزائیت کی تردید میں آج تک جو ہزاروں کتابیں لکھی گئی ان میں سے اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب شمس الہدایہ ہے ، اس کتاب میں پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ملت اسلامیہ کے اس اجتماعی اور متفقہ عقیدے کی بڑے ہی موثر انداز میں ترجمانی فرمائی کی مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعوٰی غلط، با طل اور جھوٹا ہے، حیات مسیح کامسئلہ قادیانیت کی موت ہے۔یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوکر پورے ہندوستان میں پھیل گئی ، ا سکی ایک کاپی مرزا قادیانی کوبھی قادیان کے پتے پر بھیج دی گئی ۔کچھ عرصہ بعد مرزا قادیانی نے اپنےحواری خاص مولوی محمد احسن امروہی سے اس کتاب کا جواب بنام شمس بازغہ لکھوا کر شائع کیا۔پھر پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شمس بازغہ کی تردید میں کتاب سیف چشتیائی لکھی ، یہ کتاب اپنے معرض وجود میں آنے سے آج تک کئی بار چھپ کر شائع ہو چکی ہے لیکن آج تک گروہ مرزائیہ کو اس کا جواب لکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ مرزا قادیانی جب کتاب شمس الہدایہ کے دندان شکن انداز سے لاجواب ہوا تو مکر وفریب کی ایک اور چال چلی اور 20 جولائی 1900 کو حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور ہندوستان بھر کے دوسرے چھیاسی علمائےکرام اور صوفیائے عظام کو لاہور آکر مناظرہ کرنے کی دعوت دی اور طرح طرح کی باتیں لکھ دیں اور خود ہی فیصلہ کا ایک سہل طریقہ بھی لکھ دیا کہ “میرے صاحب میرے مقابل سات گھنٹے تک زانوبہ زانو بیٹھ کر چالیس آیات قرآنی کی عربی میں تفسیر لکھیں جو تقطیع کلاں کے بیس ورق سے کم نہ ہو، پھر دونوں تفسیریں تین عالموں کو جن کا اہتمام حاضری وانتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا،سنائی جائیں جس کی تفسیر کو وہ حلفاً پسند کریں وہ مویدمن اللہ سمجھا جائے گا۔ مجھے منظور ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب اس شہادت کےلیے مولوی محمدحسین بٹالوی او ر مولوی عبد الجبار غزنوی امر تسری او ر مولوی عبد اللہ پروفیسر لاہوری کو یا تین مولوی منتخب کر لیں جو ان کے مرید اورپیروکار نہ ہوں، اگر پیر صاحب کی تفسیر بہتر ثابت ہوئی تو میں اقرار کرتا ہوں کہ اپنی تمام کتابوں جو اپنے دعوٰی کے متعلق ہیں جلاد وں گا او ر اپنے تیئں مخذول اور مردود سمجھوگا اور اگر وہ مقابلہ میںمغلوب ہو گئے یا انہوں نے مباحثہ سے انکار کر دیا توان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں۔ مزید مرزا قادیانی نے مقام بحث لاہور مرکز پنجاب کو منتخب کیا اور لکھا کہ اگر میں حاضر نہیںہوا تو اس صورت میں، میں کاذب سمجھا جاؤں گا او رلعنت ہو اس پر جو تخلف یا انکار کرے۔(مجموعہ اشہارات: جلد3صفحہ 325تا 332 ملخصا)

مرزا قادیانی کو یقین تھا کہ پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو نہایت معمور الاوقات اور عزلت گزیں بزرگ ہیں اور ذکر الہی ان کا دن رات کا مشغلہ ہے لہذا آپ مناظرہ کےلیے ہر گز نہیں آئیں گے اور اسے مریدوں کے سامنے یہ شیخی بھگارنے کا موقع مل جائے گا کہ پیر صاحب گولڑوی جیسا فاضل اجل جس کے لاکھوں مریدہیںمیرے مقابلہ کی جرات نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ دیکھ کر مرزا قادیانی کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ پیر صاحب نے سچ مچ میں اس چیلنج کومنظور کر لیا۔آپ نے لکھا کہ : مرزا قادیانی کا اشتہار آج 20 جولائی 1900ء کو نیا زمندکی نظر سے گزرا، خاکسار کو دعوت حاضری جلسہ لاہور میں مع شرائط مجوزہ کے سلک میں منسلک فرما لیاجائے اور وہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی اجلاس میں پہلے اپنے مسیحیت و مہدویت کے دلائل پیش کریں اور میں مرزا قادیانی کے دلائل کا جواب دوں گا اگر مرزا قادیانی کے تجویز کردہ تینوں حکم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ مرزا قادیانی اپنے دعوٰ ی کو پایہ ثبوت تک نہ پہنچا سکے تو وہ میرے ہاتھ پر توبہ کر لیں، میں اپنی طرف سے تاریخ مناظرہ 25 اگست 1900کو بمقام لاہور مقرر کرتاہوں۔

الغرض جب تمام مراحل ہو گئے تو آپ 22 اگست 1900 کو گولڑہ شریف سے روانہ ہوئے۔ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے بذریعہ تار قادیان میں مرزا صاحب کو اطلاع کر دی، اسلامیان ہند کی اس علمی، دینی اور روحانی قیادت کے وقت حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عمر شریف صرف41 برس کے قریب تھی اور علوم دینیہ سے فارغ التحصیل ہوئے 22 سال گزر چکے تھے۔ آپ بخیریت لاہور پہنچے لیکن قادیانی کذاب کو حق کے رعب نے مقابلہ پر آنے کی اجازت نہ دی البتہ اس کی جگہ ایک مطبوعہ اشتہار لاہور میں تقسیم کر ادیا کہ پیر صاحب مقابلہ سے بھاگ گئے جو لوگ بچشم خود پیر صاحب کو لاہور میں دیکھ رہے تھے، وہ بزبان حال کہہ رہے تھے: “ایں چہ می ہینم بہ بیداری ست یا رب بخواب”مگر نبوت و امامت کے جھوٹے دعویدار کوا ب قدم باہر نکالنے کی جرات نہیں ہو رہی تھی تو مرزا قادیانی کا یک زردرنگ اشتہار بزبان حال مرزائی ہزینت اور زردروئی کی شہادت دے رہا تھا، بلا تاریخ نکلاجس میں لکھا تھا کہ پیر صاحب نے ہمارا طریق فیصلہ منظور نہ کیا اور چال بازی کی، اس کے بعد ایک اعلان بھی شائع کیا جس کا عنوان آخری حیلہ تاریخ طبع 28 درج تھی ، لیکن یہ لاہور میں پیر صاحب کی مراجعت کے کئی دن بعد تقسیم ہو ا۔ دجل و فریب اورجھوٹ کے تمام پروپیگنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی فتح کے اعلان کرتا رہا۔ اس اعلان کے متعلق منشی الہی بخش اکاؤنٹنٹ لاہور نے جو سالہا سال تک مرزائی رہنے کے بعد مرزائیت سے تائب ہوئے تھے۔ کتاب عصائے موسیٰ میں لکھا: “جب مرزا قادیانی لاہور آنے سے ایسے ہراساں وتر ساں تھے تو اول خود ہی اشتہار دے کر اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالا؟ مرزا قایانی نے خود ہی تو تمام دنیا کو مقابلہ کےلیے بلایا اور اشتہار پر اشتہار شائع کیے اور جب آپ کے حکم کی تعمیل میں حضرت پیر صاحب اور دوسرے حضرات جمع ہوئے تو فرمانے لگے کہ ایسے مجمع میں جانا تو گویا آگ میں کود پڑنا ہے۔ ذرا غور کرو کہ اللہ کےمرسل تو سچ مچ دہکتی آگ میں ڈال دیے گئے لیکن حافظ حقیقی نے انہیں ہر طرح سے محفوظ رکھا لیکن آپ محض خیالی اور مجازی آگ میں قدم رکھنے سے بھی ڈر گئے جو خود بدولت سلگائی تھی۔سچا مومن تو خیر الحافظین کے حفظ و امن اور ا س کی نصرت بخشوں کا بھروسہ کر کے ہرخطرے کا مقابلہ کرتا ہے لیکن منافق لوگ اس طرف قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔گویامرزا قادیانی کو لاہور آنے کی جرات نہ ہوئی لیکن ہر کس و ناکس کومرزا قادیانی کے اس قول کی تصدیق ہوگئی کہ اگر میں حاضر نہ ہوا تو تب بھی کاذب سمجھا جاؤں گا۔ (عصائے موسیٰ: صفحہ 421)

25اگست کا دن بھی گزر گیا اور 26اگست کا دن بھی چلا گیا مگر مرزا صاحب کو نہ آنا تھا ،نہ آئے، تمام تر کوششوں کے باوجود مرزا صاحب کو لاہور لانے میں نا کام ہو گئے۔ تو اس جماعت کے ایک وفد نے حضرت قبلہ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آپ مرزا صاحب کے ساتھ مباہلہ کریں یعنی اندھا اور اپاہج شخص کے حق میں دعا کریں جس کی دعا سے اندھا اور اپاہج شفا یاب ہو جائے اُسی کو برحق مان لیا جائے اس پر حضرت قبلہ عالم نے فرمایا: اگرمردے بھی زندہ کرنے ہو ں تو آجائیں میں حاضر ہوں تفسیر نویسی کے معاملے میں آپ نے فرمایا: ہاتھ میں قلم پکڑ کر تفسیرلکھنا تو عام سی بات ہے ہمارے آقا ومولا خاتم النبیین ﷺ کی امت میں اس وقت بھی ایسے خادم دین موجود ہیں اگر وہ قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خودبخود تفسیر لکھنے لگے۔

27 اگست 1900ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں اہل اسلام کے بےمثال عظیم الشان اجتماع جس میںصدارت اور دعا حضرت پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ اس جلسہ میں انتہائی ایمان فروز تقریریں ہوئی اور ایک قرارداد بھی منظور کی گئی اس قرارداد پر تقریباً 60 علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ قرارداد کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا برزگان دین اور مشاہیر اسلام کو علمی مناظرے کا چیلنج دینا محض جھوٹی شہرت حاصل کرنے کا اظہار ہے۔پیر مہر علی شاہ کو جو چیلنج مرزا کذاب کی طرف سے دیا گیا وہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ صرف مرزا قادیانی کی لاف زنی اور اپنے علم پر جھوٹا گھمنڈ تھا، اگر اسے اپنے جھوٹے دعوؤں پر اعتماد تھا تو اسے پیر صاحب گولڑہ شریف سے تقریری مباحثے سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد قرآن کریم، احادیث رسول ﷺ اور صحابہ کرام کے اجماع کےبالکل خلاف اور باطل ہیں۔ مرزا قادیانی نبوت کے غلط، بے بنیاد اور لغوی دعوی کی بنیاد پر خارج از اسلام ہے۔ مرزا قادیانی کا قادیان کو مکہ سے نسبت دینا، مسجد قادیان کو مسجد اقصیٰ قرار دینا، رسول اللہ ﷺ کی معراج کامنکر ہونا،اللہ کے ایک برگزیدہ اور محبوب پیغمبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی سخت توہین کرنا انتہائی شرمناک اور سرا سر کفر ہے۔مرزا قادیانی کی تحریریں اور اشتہارات بھی شرمناک جھوٹ اور بد زبانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس لیے آئندہ اس کی تحریروں کا کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن او ر اٹل بات ہے کہ غلام احمد قادیانی کے عقائد یکسر خلاف اسلام ہیں

 
 
 

Recent Posts

See All

Comments


Post: Blog2_Post

03095089292

  • Facebook
  • Twitter
  • LinkedIn

©2021 by Muhammad Faiz Ul Mukhtar Noori. Proudly created with Wix.com

bottom of page